All Pakistani Dramas Lists
Latest Episodes of Dramas - Latest Politics Shows - Latest Politics Discussions
Latest Episodes of Dramas - Latest Politics Shows - Latest Politics Discussions
Thread: کیا گھاس کھا لی ہے؟؟
-
06-23-2015 #1
کیا گھاس کھا لی ہے؟؟
سید خورشید شاہ نے گھاس کھا لی ہے؟؟
انسان کو اتنا بھی اوپرچنیسٹ نہیں ہونا چاہیئے۔
انسان کی زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
کیا بھول گئے قرآن کا سبق۔؟؟
اپنے پانچ سالوں میں بجلی کے لئے کیا کیاتھا؟؟
Opportunist !
اپوزیشن کا کراچی ہلاکتوں پر 26 جون کو یومِ سیاہ منانے کا اعلان - BBC Urdu
-
06-24-2015 #2
Re: کیا گھاس کھا لی ہے؟؟
ارے بھائی آپ زیادتی کر رہے ہیں ۔ ۔۔۔ زرداری کے بھونکنے کے بعد میاں صاحب نے ملاقات سے معذرت کرلی ۔۔۔۔۔ اب اس دکھ کا ساڑا نکالنے کے لیئے خورشید شاہ اتنا بھی نہ کریں تو زرداری صاحب ان کو مرغا نہیں بنائیں گے کیا ؟ ویسے بھی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ۔ گرمی اور بجلی کے بحران کی وجہ سے حکومت کو تنگ کرکے اگر کچھ رعائیتں لی جاسکتی ہیں تو ایسا موقعہ ہاتھ سے کیسے جانے دیں ؟ اور اگر جانے دیں تو پھر انہیں موقعہ پرست کون کہے ؟
-
06-25-2015 #3
Re: کیا گھاس کھا لی ہے؟؟
شاید ہم تماش بین سی قوم ہیں۔ علما میں ان کی ریٹنگ بہت زیادہ ہے جن کے پاس علم کی بجائے زبان کا ہنر زیادہ ہے۔ اور زبان بھی ایسی جو مخالف فرقے کی ایسی تیسی کرنے میں ماہر ہو۔ آگ لگا سکتی ہو، نفرت پھیلا سکتی ہو،خون گرما سکتی ہو۔ جس کی وجہ سے ان پر زبان بندی، ضلع بدری جیسی پابندیاں لگ جائیں۔
سیاست میں بھی ہم ، لپکنا،جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا،جیسی صلاحیتوں والے عقابوں کو پسند کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ مخالف کو رگید دیا کرتے تھے۔ وہ جتنا دوسرے سیاست دانوں کے بارے میں توہین آمیز رویہ اپناتے، ان کی تضحیک کرتے ،ان کے نام بگاڑتے ان کے چاہنے والے اتنے ہی پر جوش ہو جاتے۔ اتنے ہی فلک شگاف نعرے لگاتے، اتنا ہی آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ اخلاقی لحاظ سے ایک خامی بھٹو کے جیالوں کو اس کی خوبی لگتی تھی کیونکہ وہ سرمایہ داراور جاگیر دار کو اپنا نشانہ بناتے جو غریب اور کسان ہاری کو بہت اچھا لگتا تھا۔
نواز شریف کی سیاست کیا آغازبھی پی پی کے اور اس کے لیڈروں کے بارے میں انتہائی درشت ،معاندانہ اور نفرت پر مبنی خیالات سے ہوا۔ پاکستان کو دو لخت کرنے میں پی پی کے کردار کو جواز بنا کر آپ کہا کرتے تھے کہ پی پی کا نام سن کر میرا خون کھولنے لگتا ہے۔پاکستان کو دو لخت ہوتے دیکھنے والوں کو نواز شریف کی آواز اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی تھی ۔سو وہ اس پر پرجوش ہو جاتے۔
مگر وقت نے آخر انہیں سکھایا کہ ہم بھولے میں کسی اور کے مفادات کے لئےدست و گریبان ہوتے رہتے ہیں اور ہماری لڑائی میں ہمیشہ روٹی کوئی اور کھا جاتا ہے۔ ان نے میچور سیاست کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس میں جیتنے والے کے مینڈٹ کا احترام کرنا، اپوزیشن کرنا مگر ایک حد تک رہ کر جس سے نظام کو خطرہ نہ ہو۔
زرداری صاحب کی حکومت پانچ سال چلی، کس طرح چلی، سب جانتے ہیں۔ ان کا سار عرصہ اپنے گول کے ارد گرد اپنی حکومت بچانے ہی میں لگا رہا۔ ہر روز حکومت جانے کی تاریخ دی جاتی تھی۔ یہ زرداری کے حوصلے اور برداشت کی انتہا تھی اور میاں نواز شریف کے عہد کا پاس کی زرداری حکومت نے اپنی قانونی مدت پوری کر لی۔
نواز شریف کی باری آ گئی جسے پہلے الیکشن ہی میں ناکام بنا دینے کے لئے عمران خان جو پچھلے پندرہ سال سے میدان سیاست میں دھکے کھا رہا تھا کو جھاڑ پونچھ کر میک اپ کرکے عوام کا مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔ سارے ملک کا میڈیا اس کی تعریفوں کے پل باندھنے لگا۔ ساری سیاسی قیادت چور،ڈاکو،بد دیانت، خائن اور بد کردار بنا کر پیش کی گئی۔ بس عمران ہی عمران تھا۔ اور اسے لانچ کرنے والوں نے اسے بتا دیا کہ مقبولیت کا رازعقاب بننے میں ہے۔ اس نے بھٹو کی کاپی کرتے ہوئےوہی جارحانہ انداز اختیار کیا۔اور ہر مخالف کی تذہیک کرنے لگا۔ نام بگاڑنے لگا۔ اوئے اوئے کہہ کر پکارنے لگا۔ جس کا اسے فائدہ اس شکل میں ہوا کہ پی پی پی کا وہ جیالہ جو بھٹو کا دیوانہ ہی اس کی زبان درازی کی وجہ سے تھا پی ٹی آئی کی طرف کھنچتا چلا آیا۔
پی پی ،بھٹو والی پی پی نہیں رہی تھی۔ زرداری کی مفاہمتی سیاست نے آگ لگا کر تماشا دیکھنے والے تماش بین قسم کے پی پی کارکنوں کے جذبات کو راکھ بنا کر رکھ دیا تھا۔ شرافت،شائستگی،برداشت اور میچور سیاست کی دنیا میں ان کا دم گھٹنے لگا تھا۔ جب ایک کھلنڈرا،پلے بوائے ،اور کرکٹ کا قومی ہیرو ان کے سامنے بھٹو بن کر آیا جس کے جلسوں میں باقائدہ کنسرٹ کا ماحول بن جاتا تھا۔ جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھلے ماحول میں ناچتی گاتےاور انجوائے کرتے تھے۔توتمام وہ طبقات جن کی وجہ سے کبھی کہا جاتا تھا،
پیپلز پارٹی بلے بلے،،،،،،،،،، ادھے۔۔۔۔ ادھے ۔۔۔۔۔۔ بھاگم بھاگ اس طرف لپکے کہ یہ تو ان کی اپنی پارٹی سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔ ایسا تو پی پی پی میں بھٹو دور میں بھی نہیں تھا۔سار رنگ و نور اس سمت کھنچنے لگا اور پیپلز پارٹی معدوم ہونے لگی۔
زرداری اپنی میچور سیاست نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ مگر تماش بین ووٹر اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ زرداری کو پی پی کے سینئر لیڈروں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ انداز سیاست پی پی پی کا انداز سیاست نہیں ہے۔ بلاول تک کو قائل کیا گیا مگر زرداری نے مزاحمت جاری رکھی۔ اب بھی پارٹی کے اندر کشمکش جاری ہے۔
خورشید شاہ زرداری کی لائن فالو کرتے رہے ہیں۔اسی لئے ہم نے ہمیشہ انہیں اعتدال میں رہ کر اپوزیشن کرتے دیکھا ہے۔
مگر میرے بھائی،پی پی کو بھی سیاست کرنا ہے۔ سندھ میں ان سے اچھی کارکردگی نہیں دکھائی جا رہی۔ اب اگر بجلی بحران پر انہیں نواز شریف حکومت پر تنقید کرنے کا کچھ موقع ملا ہے توکیا یہ ان کا حق نہیں ہے؟ کیا انہیں اپنے ہاتھوں اپنا گلا کاٹ لینا چاہیئے؟
انہیں سیاست میں زندہ رہنے کے لئے حکومت کی پر زور مخالفت کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کا بچا کھچا ووٹ بنک محفوظ رہ سکے۔
-
06-29-2015 #4
-
06-29-2015 #5
-
06-29-2015 #6